Episode.9
رات کو واپسی پر آتش تھکا ہارا اپنے کمرے میں قدم رکھ چکا تھا کمرے کی حالت دیکھ کر اس کا دماغ سن ہو گیا کپڑے، کتابیں، چیزیں سب ادھر ادھر بکھری ہوئی تھیں اس کا غصہ ایک دم بھڑک اٹھا ۔مہر نے اپنے چوٹ لگے ہاتھ سے بستر ٹھیک کرنا چاہا مگر تکلیف سے اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔ اس نے آتش کو دیکھا جو سخت چہرہ لیا اس کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ایک جھٹکے سے اس نے مہر کا بازو پکڑا اور اسے زور سے دروازے سے جا لگایا ۔آتش کی بھوری آنکھیں آگ اگل رہی تھیں ۔
" چلی کیوں نہیں جاتی مہر۔ میری زندگی سے، ہاں !کس چیز کا انتظار ہے تمہیں آخر تم چاہتی کیا ہو ؟"
مہر کی آنکھیں نمی سے بھر گئی اس نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے کہ آتش نے پھر سے اس کو جھٹکا دیا
" میرا نام بھی مت لو ایک لفظ بھی نہیں، سمجھی "
اس کا سانس اٹک گیا جب آتش نے اپنا گرم اور سخت ہاتھ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیا وہ ایک پل کے لیے جم گئی سانس لینا تک بھول گئی آتش کی نرمی کا ایک قطرہ بھی اس کے لہجے میں نہیں تھا مہر نے اپنے زخمی ہاتھ سے اس کا ہاتھ ہٹانا چاہا خون کا نرم گرم احساس اس کی انگلیوں سے گزر کر آتش کے ہاتھ تک پہنچا اس نے فورا اپنا ہاتھ جھٹک دیا جیسے کوئی جلن محسوس ہوئی ہو مہر کی آنکھیں اس کے چہرے کو تک رہی تھیں آتش نے ایک گہری سانس لی جھٹکے سے اس کو چھوڑا اور بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا،
اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر!
مہر ایک پل کے لیے وہاں کھڑی رہی پھر آنکھوں کی نمی کو پونچھتی درد کو اندر دباتی بنا کوئی شور کیے دروازہ کھولا اور رات کے اندھیرے میں کھو گئی
☆☆☆
رات کے سناٹے ہر طرف چھائے تھے ٹھنڈی ہوا بارش سے پہلے کی غمگین خوشبو لیے بہہ رہی تھی مہر بنا کسی منزل کے چلتے جا رہی تھی آنسو سے بھیگی آنکھوں سے سب کچھ دھندلا لگ رہا تھا اس کے قدم کبھی تیز ہوتے کبھی دھیرے شہر کی روشنیوں سے دور ایک عجیب سی تنہائی تھی جو اس کے دل پر پتھر کی طرح گر رہی تھی آتش ابھی بھی روم میں سر دونوں ہاتھوں میں تھامے بیٹھا تھا اس کے ذہن میں صرف مہر کی خاموش آنکھیں گونج رہی تھیں اس نے اسے کتنا برا کہا کتنی نفرت سے دیکھا یہ سوچ کر ہی ایک عجیب سی بے چینی نے اس کے اندر آگ لگا دی بے اختیار اس کی نظر اپنے ہاتھ پر گئی تھی مہر کا خون ابھی بھی اس کے ہاتھ پر تھا اس کا دل دھک سے رہ گیا ۔
یہ کیا ؟؟ تبھی اچانک زور سے بجلی چمکی اور پورا شہر ایک پل میں اندھیرے میں ڈوب گیا ہر طرف اندھیرا اور اس کے ساتھ بارش کی موٹی موٹی بوندیں گرنے لگیں آتش نے ایک دم سے اپنا سر اٹھایا
"مہر ؟"
اس نے پوری طاقت سے پکارا لیکن ہوا اس کی آواز اپنے ساتھ بہا لے گئی دروازہ زور سے کھولا اور بنا سوچے سمجھے باہر کی طرف بھاگا بارش اب تیز ہو چکی تھی کپڑے بھیگ چکے تھے لیکن اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا اسے بس" مہر "چاہیے تھی اس کے دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی وہ گلیوں میں سڑکوں پر ہر جگہ دیکھ رہا تھا ہر موڑ ہر گلی میں، لیکن مہر کہیں نہیں تھی ۔
"مہر،،"
اس کی آواز بارش کے شور میں گھل گئی بے چینی بڑھ رہی تھی پاؤں خود بخود تیز ہوتے گئے وہ آگے بڑھتا رہا اور اندھیرا اس کے ساتھ چلتا رہا۔
☆☆☆
آتش بے چینی سے بارش میں بھٹک رہا تھا ہر جگہ دیکھ چکا تھا ہر موڑ پر مہر کا نام پکار چکا تھا لیکن کوئی جواب نہیں آیا دل ایک عجیب سی گھبراہٹ میں گرفتار ہونے لگا جیسا کچھ برا ہونے والا ہو تبھی ایک زور کا دھماکہ ہوا زمین ہل گئی آسمان ایک پل کے لیے لال روشنی سے بھر گیا آتش نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا اس کی دل کی دھڑکن ایک سیکنڈ کے لیے رکی تھی آنکھوں کے سامنے کچھ دور ایک گیسولین اسٹیشن تھا جہاں سے آگ کے شعلے بڑھ رہے تھے
"Hell no!"
اس کے ہونٹوں سے بس یہی نکلا اور وہ بنا سوچے سمجھے وہاں کی طرف بھاگا بارش کی بوندیں آگ کو دبا نہیں پا رہی تھی الٹا ہوا اس آگ کو مزید بھڑکا رہی تھے آتش تیز قدموں سے گیسولین اسٹیشن کی طرف بڑھا اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا بارش کی تیز بوندیں اس کے چہرے سے ٹکرا رہی تھیں لیکن اس کی نظر صرف ایک چیز تلاش کر رہی تھی
"مہر !"
اس نے پوری طاقت سے پکارا لیکن کوئی جواب نہیں آیا وہ بے چینی سے ادھر ادھر دیکھتا رہا ہر کونے ہر چھوٹی جگہ لیکن مہر کہیں نہیں تھی دل اور بھی تیز دھڑکنے لگا کیا وہ یہاں آئی بھی تھی؟کہیں اس کے ساتھ کچھ۔۔۔۔۔،
تب ہی اس کی نظر دور ایک سائے پر پڑی وہ ایک پل کے لیے رکا سانس اندر کھینچ لی پھر دھیرے سے ایک قدم آگے بڑھایا، پھر ایک اور، اور پھر اچانک وہ تیز بھاگنے لگا سائے کے اس پار مہر تھی وہ ایک جگہ سونی آنکھوں سے اس آگ کو دیکھ رہی تھی جیسے اس کے آس پاس کچھ ہو ہی نہ اس کے آنسو بارش کے پانی کے ساتھ مل گئے تھے کپڑے بھیگ چکے تھے لیکن وہ بس وہیں کھڑی رہی بالکل بے جان سی، ڈر اور صدمے سے، جیسے جم گئی ہو
" آتش!"
اس کے ہونٹوں سے ہلکی سی آواز نکلی لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتی آتش اس کے قریب پہنچ چکا تھا آتش نے تیز قدموں سے مہر کا ہاتھ پکڑا اس کی انگلیوں کے درمیان گرم بھیگا ہوا لہو محسوس ہوتے ہی وہ ساکت ہو گیا اس کا دل ایک دم سہل گیا " مہر "
اس کے ہونٹوں سے بس اتنا ہی نکلا اور پھر اس نے مہر کا ہاتھ اپنی مٹھی میں زور سے دبا لیا جیسے اسے کھو دینے کا ڈر ہو مہر کی چوٹ سے ابھی بھی خون بہہ رہا تھا جو بارش کے پانی کے ساتھ مل کر روڈ پر بہہ رہا تھا آتش کی آنکھوں سے ایک دم آنسو ٹپک پڑے اس کا غم اس کا غصہ اس کی بےچینی سب ایک ساتھ پھوٹ پڑا اس نے ایک ہی جھٹکے میں مہر کو اپنی بانہوں میں کھینچ لیا اتنی زور سے اتنا بے تامل ہو کر، کہ مہر کو لگا کہ اس کی سانسیں رک جائیں گی مگر مہر بالکل خالی تھی نہ کوئی جذبات نہ کوئی حرکت وہ بس خاموش تھی آتش کے کندھے کے پیچھے جلتی ہوئی آگ کو دیکھتی رہی آتش نے محسوس کیا کہ اس کی بانہوں میں ایک بے روح انسان کھڑا ہے وہ دھیرے سے مہر سے الگ ہوا اور اس کا بھیگا ہوا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اس کی بھیگی پلکیں دیکھیں اس کے ہونٹ دیکھے جو تھرتھرا رہے تھے اس نے اندھیرے سے مہر کے ماتھے کو اپنے ہونٹوں سے چھوا
" ٹھیک ہو ؟"
اس نے پھر بھی ڈر سے پوچھا جیسے اسے اپنی آواز پر بھروسہ نہ ہو مہر نے دھیمے سے اپنی بے حس گردن ہلا دی آتش نے ایک گہری سانس لی پھر اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور اس کو اپنے ساتھ لے کر واپس چل پڑا
☆☆☆
کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا صرف بجلی کی چمک تھی جو کبھی کبھی آتش کے چہرے پر گرتی اور اس کی گہری بھوری آنکھوں میں ایک عجیب اثر بھر دیتی بارش کی آواز اب بھی اتنی ہی تیز تھی آتش نے بنا کچھ کہے مہر کا ہاتھ اٹھایا اور اس کے زخم پر بینڈج باندھنا شروع کر دیا اس کا لمس نرم تھا لیکن اس کے چہرے پر کوئی اظہار نہیں تھا مہر کی پلکوں سے بے آواز آنسو گرتے رہے اس کا دل زیادہ تیز دھڑک رہا تھا غصے سے نہیں بلکہ خوف سے،
یہ کیسا انسان تھا جو ابھی کچھ دیر پہلے اس پر چلا رہا تھا اس کو گھر سے نکلنے کا کہہ رہا تھا اور اب ؟؟
اب وہ کیا کر رہا تھا اس کی اتنی فکر کیوں؟ ایک اجنبی سی گھبراہٹ نے اس کا سینہ کس دیا اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور تیزی سے اٹھ گئی آتش نے صرف ایک پل کے لیے اس کو دیکھا مگر کچھ کہا نہیں مہر نے تیزی سے دروازہ کھولا اور اندھیرے لاؤنج سے گزرتی ہوئی تیز قدم سے پورچ کی طرف چلی گئی جیسے ہی اس کا چہرہ بارش کی بوندوں سے بھیگا ایک گرم سخت ہاتھ نے اس کے بازو کو جھپٹ لیا مہر کا دل ایک دم ابھر گیا آتش نے اسے اپنی طرف کھینچ کر بالکل قریب کر لیا بہت قریب،
مہر نے بے چینی سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی
" آتش مجھے جانے دو "
آتش نے ایک گہری سانس لی اس کی انگلیاں مہر کی کلائی پر ڈھیلی پڑی لیکن پھر اس نے مضبوطی سے پکڑ لیا
" نہیں"
مہر نے غصے سے اس کو دیکھا
" تمہیں کوئی حق نہیں ہے، آتش !"
اس کے آنسو تیزی سے گر رہے تھے وہ ایک لمحہ رکا
" لیکن پھر بھی صرف تم پر حق محسوس ہوتا ہے "
اتش کی آواز بھرائی تھی مہر نے اپنا سر جھٹکا لیکن اتش اس کی طرف ایک اور قدم بڑھ گیا ان کے درمیان صرف سانسوں کا فاصلہ تھا
" مہر ۔۔۔"
اس نے دھیرے سے اس کا نام لیا جیسے کوئی صدا سننے کی کوشش کر رہا ہو مہر کی آنکھیں اب بھی گیلی تھی لیکن اب اس میں ڈر کے ساتھ ایک اور اجنبی احساس بھی تھا آتش نے دھیرے سے اپنا ہاتھ اٹھایا، مہر کے بھیگے چہرے سے ایک آنسو ہٹایا مہر نے آنکھیں بند کر لی جیسے اپنے ہی جذبات سے بھاگ رہی ہو اور پھر بے اختیار آتش کا چہرہ اس کے اور قریب آیا ایک لمحے کے لیے پوری دنیا خاموش ہو گئی ایسا لمحہ جو صرف ان دونوں کے درمیان تھا ایک بہترین خوبصورت چھپے ہوئے احساس کا لمحہ جس میں صرف سانس کا رشتہ تھا یا شاید کچھ اور ! وہاں نا محبت کا اظہار ہوا تھا نہ شکایت کا اضافہ صرف ایک بند آنکھوں والا راز تھا، جو صرف بارش کو معلوم تھا
☆☆☆
ہلکا اندھیرا تھا ،کمرے میں صرف ایک کارنر لیمپ کی مدھم سی روشنی تھی جو ایک عجیب سی گرمی اور تنہائی کا احساس دے رہی تھی سامنے رکھے گلاس ٹیبل پر ایک سگریٹ سلگ رہا تھا جس کا دھواں دھیرے دھیرے ہوا میں گھل رہا تھا اریس چرمی کرسی پر بیٹھے بیٹھے اپنی انگلیاں چٹخا رہا تھا اس کا چہرہ پر سکون تھا لیکن اس کی گہری آنکھوں میں ایک عجیب سی بیزاری تھی جیسے کوئی آگ ہو، جو دھواں نہیں دیتی بس اندر ہی اندر جلتی ہے اس کے سامنے ایک آدمی ڈر سے کانپ رہا تھا جس کے چہرے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں اریس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سگریٹ اٹھائی اور دھیمے لہجے میں بولا
" سامنے دیکھو"
وہ شخص اب بھی اپنی نظر نیچے کیے کھڑا رہا اریس نے بیزاری سے زبان ٹکٹکائی جیسے کسی کتے کو بلا رہا ہو
" میں نے کہا سامنے دیکھو "
اس شخص نے گھبرائی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اریس نے ایک لمبی سانس لی اور سگریٹ کا دھواں اس کی طرف پھینکتے ہوئے بولا
" مجھے ایک بات بتاؤ، اگر ایک آدمی روڈ پر چلتا جائے اور کسی نے اس کی گردن پر ہاتھ رکھا ہو تو اسے فورا محسوس ہو جاتا ہے۔ہے نا؟"
اس شخص نے ہلکی سی ہاں میں گردن ہلا دی اریس مسکرایا ایک ایسی مسکراہٹ جو صرف ایک شکار کو اس کی موت کا احساس دلانے کے لیے ہوتی ہے
" مگر اگر وہی ہاتھ دھیرے دھیرے بنا محسوس کرائے اس کی گردن تک آئے، تو جب تک وہ سمجھے تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے "
اس نے سگریٹ کا دھواں پھر سے اس شخص کے چہرے کی طرف پھینکا
" بس کچھ ایسی ہی ہوتی ہے بدلے کی بھوک، دھیرے دھیرے اندر گھستی ہے ۔ پہلے صرف ایک بے چینی ہوتی ہے پھر ایک سوچ اور پھر ۔۔۔۔۔ بس ایک فیصلہ "
اس نے اپنی کرسی سے ہلکا سا جھک کر میز پر رکھا وہسکی کا گلاس اٹھایا
"ایک تھپڑ، صرف ایک تھپڑ تھا نہ؟"
اس نے دھیمے سے کہا جیسے ماضی کا ہر پل دوبارہ محسوس کر رہا ہو
" مگر صرف ایک تھپڑ کسی کو یاد رہنے لگ جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پرابلم ایک تھپڑ نہیں بلکہ، پرابلم وہ شخص ہے جس کا ہاتھ اٹھا ہے"
اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی رگیں چمک اٹھی تھی
" ایک لڑکی جو سوچتی ہے کہ وہ مجھ سے بچ سکتی ہے"
اس کا ٹون اب اور بھی ٹھہرا ہوا تھا
" اس کے ہاتھ کا اثر صرف میرے گال تک نہیں رہا اس کا اثر میرے وجود پر پڑا ہے ،اور میں کسی بھی چیز کو اتنا آسان نہیں چھوڑتا "
اس نے وہسکی کا گلاس ٹیبل پر رکھا اور کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا پھر دھیرے سے اپنی آستین فولڈ کی جیسے ایک فیصلہ لے چکا ہو
" وقت آنے، دو ہر چیز کا وقت ہوتا ہے"
اس نے اپنے کوٹ کے کالر کو ہلکے سے سیٹ کیا اور پھر اس شخص کے قریب جھک کر دھیرے سے کہا
" مجھے صرف مزہ تب آتا ہے جب شکار کو دوستوں کی مثال ملنے لگے، وہ بھی ان دوستوں کی جو اب دنیا میں نہیں رہے"
اس کا لہجہ اتنا سرد تھا کہ سامنے والا آدمی تھوڑا پیچھے ہٹا اریس نے اس کی طرف ایک بے زار نظر ڈالی اور پھر دھیرے سے مسکرایا
" اس نے میری عزت مٹی میں ملائی تھی!"
اس نے ہلکا سا سر جھکایا جیسے کوئی مذہبی عہد لے رہا ہو
" اب میری باری ہے"
پھر سگریٹ کا دھواں ہوا میں پھینکا اور ایک خاموش لیکن بیان سے باہر اندھیرا چھوڑتا چلا گیا
☆☆☆
ہلکی روشنی سے مہر کی آنکھیں کھلی تھی لیکن اس کو اپنا سر بھاری اور اپنا پورا بدن ٹوٹا ہوا محسوس ہو رہا تھا، سرد اور بے جان ۔ اس نے آس پاس کا ماحول پہچاننے کی کوشش کی مگر پہچان نہ پائی صرف ایک عجیب سی گرمی تھی جو اس کو محسوس ہو رہی تھی جیسے ہی اس نے حرکت کرنے کی کوشش کی تبھی اسے چکر آیا اور سب کچھ دھندلا ہو گیا آتش جو کرسی پر سویا تھا جیسے ہی ہلکی سی حرکت محسوس کی فورا آنکھیں کھلیں ، اس کی نظر مہر پر پڑی پھر اس نے دیکھا مہر کی آنکھیں بند ہو رہی ہیں
" مہر ۔۔۔"
اس نے ہلکی آواز میں پکارا لیکن کوئی جواب نہیں
" مہر !"
اب اس کی آواز میں پریشانی تھی آتش تیزی سے اٹھ کر اس کے پاس گیا اس کے چہرے پر ہاتھ رکھا مہر کا بدن بالکل تپ رہا تھا
"shit!"
آتش کی سانسیں تیز ہونے لگی بنا وقت ضائع کیے اس نے مہر کو بازوں میں اٹھا لیا
☆☆☆
کالج کے انٹرنس پر سیاہ SUV رکی گاڑی سے پہلے دو ویل ڈریسڈ آدمی نکلے تھے ان کے پیچھے ایک کانفیڈنٹ اور کمپوزڈ پرسنیلٹی سامنے آئی
" رافع شاہ "
اس کی آنکھوں میں ایک خاص ٹھنڈک تھی جیسے سب کچھ اس کے کنٹرول میں ہے اس کا ٹیلرڈ سوٹ، رسٹ واچ اور چلنے کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ وہ یہاں صرف بزنس کے لیے آیا ہے مگر اس کا ایک اور مقصد بھی تھا وہ اپنی ٹیم کے ساتھ ایڈمنسٹریشن بلاک کی طرف بڑھا جب اس کی نظر ایک جانے پہچانے چہرے پر پڑی
"ایمل !"
ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی لیکن اس نے اپنے ایکسپریشن کو محفوظ رکھ لیا کالج کے ایٹموسفیئر میں ایک عجیب سی انرجی بھر گئی ایمل جس نے انجانے میں اس کو دیکھا تھا، اس کے قدم رک گئے تھے
☆☆☆
کار فل سپیڈ سے ہاسپٹل کی طرف جا رہی تھی آتش ہر سیکنڈ مرر میں مہر کو دیکھ رہا تھا اس کی ہر سانس بھاری ہونے لگی تھی جیسے کوئی انجانی ٹینشن اس کے اندر بڑھ رہی ہو فلیش بیک میں مہر کا بھگا ہوا چہرہ ٹھنڈی رات اور اس کے لاش جیسا بے جان ہاتھ اس کے دماغ میں بار بار آ رہا تھا
" مجھے جھیلنا نہیں ہے مہر، تمہیں سمجھنا ہے "
اس کے اپنے ہی لفظوں کا تمانچہ اس کے دل پر پڑا تھا
☆☆☆
کالج ایڈوٹیریم کا ہال اسٹوڈنٹس سے بھرا ہوا تھا اسٹیج پر ایک سلیک بلیک پوڈیم رکھا تھا جہاں ایک پریزنٹیشن چل رہی تھی اسٹوڈنٹس بزنس strategies اور نیٹ ورکنگ opportunities کے لیے ایکسائٹڈ تھے۔ رافع شاہ اپنے ڈارک ٹیلرڈ سوٹ اور کمپوزڈ demeanor کے ساتھ اسٹیج پر موجود تھا اس کی آنکھوں میں ایک confident intensity تھی۔ لیکن اس کی پوری توجہ صرف ایک چہرے پر تھی
"ایمل"
رافع نے اپنی اسپیچ سٹارٹ کی لیکن اس کا پورا فوکس صرف ایک شخص پر تھا
☆☆☆
آتش جیسے ہی ہاسپٹل پہنچا وہ بنا کسی کا انتظار کیے مہر کو اندر لے گیا
" ڈاکٹر جلدی دیکھو اسے"
اس کی آواز ہاسپٹل کی ریسپیشن پر گونج گئی نرس اور ڈاکٹر مہر کو سٹریچر پر ڈالے اندر لے گئے اور آتش کے ہاتھ دھیرے سے مہر کے ہاتھ سے چھوٹ گئے، پہلی دفعہ آتش خود کو لاچار محسوس کر رہا تھا
☆☆☆
" بزنس صرف ایک آئیڈیا نہیں ایک سوچ ہے آپ لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں ایک دن اس ملک کا مستقبل ہوں گے اور آپ کا نیٹ ورک جو لوگ آپ کے ارد گرد ہیں وہ آپ کا سب سے بڑا asset ہے۔ اگر آپ اپنی connectivity build نہیں کر سکتے تو کوئی بھی آئیڈیا کتنا بھی اسٹرانگ ہو فیل ہو جاتا ہے "
وہ بات سب سے کر رہا تھا لیکن اس کی نظریں ایک پل کے لیے بھی ایمل سے نہیں ہٹی ایمل تھوڑی ہچکچائی تھوڑی کنفیوز ہوئی لیکن وہ بھی اس کی طرف دیکھنے سے خود کو روک نہیں پائی
☆☆☆
کب کتنی دیر گزری آتش کو نہیں پتہ چلا تبھی ڈاکٹر باہر آئے تھے
" پیشنٹ اب سٹیبل ہے لیکن ویکنس بہت زیادہ ہے ٹھنڈ اور سٹریس کی وجہ سے باڈی نے ری ایکٹ کیا ہے انہیں آرام کی ضرورت ہے"
آتش نے محض سر ہلایا اور بنا وقت ضائع کیے اندر چلا گیا مہر تھوڑی کمزور تھی مگر ہوش میں آ چکی تھی جیسے ہی آتش اندر گیا مہر نے دھیرے سے آنکھیں کھولی آتش نے لب بھینچ لیے ، جیسے کچھ بولنا چاہتا ہوں مگر الفاظ نہیں مل رہے
☆☆☆
" آپ کو ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ خود کو جوڑنا چاہیے جو آپ کی گروتھ میں مدد کر سکتے ہیں اور کبھی کبھی کچھ کنیکشنز بنا کسی وجہ کے بن جاتے ہیں جیسے کہ بنا چاہے بھی کوئی آپ کے دماغ سے نہیں نکلتا"
وہ گہری نظروں سے ہلکا سا مسکرایا تھا یہ لائن کہتے وقت اس کی نظر سیدھا ایمل پر اٹھی تھی ایمل اس کے لفظوں کے پیچھے چھپے مطلب کو سمجھ گئی تھی پل بھر میں اس کا چہرہ سرخ ہوا تھا مگر پھر اس نے اپنے تاثرات کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی
☆☆☆
"اگر تمہیں مرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو بتا دیتی، میں خود تمہیں دفن کر دیتا "
آتش نے دھیرے لیکن غصے بھری آواز میں کہا
" اگر آپ پہلے ہی مار چکے ہوتے تو شاید یہ سب سہنا نہ پڑتا"
مہر نے ٹھنڈے لہجے میں بنا اس کی طرف دیکھے کہا آتش ایک قدم آگے بڑھا تھا اس کی آنکھیں غصے اور گلٹ سے بھری ہوئی تھیں
" میں تمہیں مارنا چاہتا، تو کل ہی تمہیں چھوڑ دیتا مگر نہیں مہر، تم خود کو جتنا بھی تکلیف دو مجھے تمہارے اس ایٹیٹیوڈ سے کوئی فرق نہیں پڑتا "
مہر نے پہلی دفعہ اس کی آنکھوں کی گہرائی میں دیکھا تھا مگر بولی کچھ نہیں
" بس اب اور نہیں"
آتش ہاسپٹل سے ہی باہر نکل گیا جیسے اپنے ہی جذبات سے بھاگ رہا ہو مہر کے ہونٹ تھوڑے سے ہلے جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو مگر پھر چپ ہو گئی آتش جو کار میں بیٹھا تھا اسٹیئرنگ کو زور سے پکڑے ہوئے، اور پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں،
" تمہیں میری پرواہ نہیں ہے مہر، پر مجھے ہے"
یہ لفظ اس کے دماغ میں گونج گئے
☆☆☆
پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا کچھ ایکسائٹڈ تھے کچھ نوٹس بنا رہے تھے لیکن رافع کی پوری دلچسپی صرف ایک جگہ پر تھی اس نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر ڈالی جیسے وہ یہ دیکھنا چاہتا ہو کہ اس کے پاس وقت کی کمی نہیں مگر کسی ایک جگہ پر وقت لگانا اس کے لیے ورتھ اٹ ہے پھر اس نے ایمل کی طرف دیکھا، گہری نگاہوں سے ۔
"یہ مجھے گھور کیوں رہا ہے"
تیز دھڑکتے دل کے ساتھ ایمل نے خود سے سرگوشی کی رافع کے لیے یہ صرف ایک بزنس پریزنٹیشن نہیں تھی یہ اس کا ایمل کو ان ڈائریکٹلی بتانے کا طریقہ تھا کہ وہ اس کے دل اور دماغ سے نہیں نکل سکتی
☆☆☆
" مجھے لگا تھا تم مجھے دیکھ کر خود آؤ گی پر لگتا ہے اب بھی ضدی ہو "
رافع چلتا ہوا اس کے پاس آیا
"اور مجھے لگا تھا آپ صرف بزنس میٹنگ میں انٹرسٹڈ ہوتے ہیں مگر لگتا ہے اب بھی فری ٹائم زیادہ ہے"
بازو باندھے ایمل نے تھوڑا طنزیہ انداز میں کہا
" جو چیز امپورٹنٹ ہو اس کے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے، تمہاری مثال لے لو "
مسکراتے ہوئے آنکھیں اس کے چہرے پر سے ہٹائے بغیر رافع شاہ نے کہا
"میری مثال؟ کیا میں آپ کے کسی بزنس strategy کا حصہ بن گئی ہوں؟"
ایمل نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا رافع ایک قدم قریب آیا
"تم میری ہر strategy سے زیادہ ڈینجرس ہو، ملی! بنا کسی پلیننگ کے بھی اثر چھوڑ جاتی ہو"
اس کا ہر لفظ آواز میں وزن لیے ہوئے تھا ایمل تھوڑا پیچھے ہوئی تھی مگر کمپوزڈ رہی تھی
" اگر یہی طریقہ ہے کسی کو امپریس کرنے کا تو مجھے کہنا پڑے گا آپ کو اور پریکٹس کی ضرورت ہے، مسٹر شاہ!"
رافع ہلکا سا ہنس دیا جیسے اس کی بات نے اسے مزہ دیا ہو
" اور اگر مجھے تم سے سیکھنا ہو"
ایمل کہ ابرو اٹھے
" تو پہلے یہ سوچ لیجئے کہ آپ کو سیکھنا بھی ہے یا صرف اپنی مرضی تھوپنی ہے"
" میں صرف وہ چیز چاہتا ہوں جو الریڈی میری ہو"
وہ سنجیدہ ہوا مگر مسکراہٹ ابھی تک برقرار تھی ایمل ایک پل کے لیے چپ ہوئی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی مگر اس نے اپنی بے چینی چھپا لی
"اور اگر کسی چیز کو لگے کہ وہ آپ کی نہیں، تو؟"
ایمل نے جیسے چیلنج کیا
" تو میں اسے یہ یاد دلانے کا طریقہ ڈھونڈ لوں گا "
وہ ایک قدم اور قریب آیا تھا ایمل کا دل ایک سیکنڈ کے لیے رک سا گیا
" تم جتنا دور بھاگنے کی کوشش کرو گی میں اتنا قریب آؤں گا"
اس نے ہلکی آواز میں کہا ایمل گھبرا کر جانے لگی تبھی رافع نے اس کی کلائی پکڑ لی
" مجھے پسند نہیں ملی، جب تم مجھے اگنور کرتی ہو"
دوسرے ہاتھ سے اس کے بالوں کی لٹ کو انگلی سے گھماتے دھیمے لہجے میں کہا
" تمہاری آنکھیں کہہ رہی ہیں کہ تمہیں میرا یہاں آنا بالکل پسند نہیں آیا مگر تمہارے دل کا حال کچھ اور ہے "
وہ اس کا اب راستہ رو کے کھڑا تھا
" تمہیں لگتا ہے کہ اگر میں صرف یہاں ایک پریزنٹیشن کے لیے آیا ہوں تو تم مجھے ابھی تک نہیں جانتی"
تیزی سے گزرتے ہوئے ایمل نے رافع کا آخری جملہ سنا تھا اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی مگر وہ بنا مڑے ہی آگے بڑھ گئی تھی، کیونکہ مومنہ دوسرے سیکشن میں اس کا انتظار کر رہی تھی۔
☆☆☆
مہر گھر آ چکی تھی لیکن وہ آتش سے بالکل بھی بات نہیں کر رہی تھی اس کا رویہ آتش کے ساتھ بالکل ہی بدل گیا تھا ٹھنڈا اور مختلف، آتش اس کے رویے کو بری طرح محسوس کر رہا تھا مگر اس میں ہمت نہیں آئی کہ کچھ کہہ پائے۔ اس کی آنکھوں میں شرمندگی تھی مگر اس کی انا اسے معافی مانگنے سے روک رہی تھی وہ جب بھی اس کے قریب جانے کی کوشش کرتا مہر اپنے قدم پیچھے کر لیتی
" مہر تم میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہو؟"
آتش نے غصے اور بے چینی سے کہا
" میں صرف ویسا بیہیو کر رہی ہوں جیسا تم چاہتے تھے"
وہ ٹھنڈے لہجے میں بولی
" دوری سے۔۔۔۔"
اور چلی گئی۔ مہر کو اب نیند کم کم آنے لگی تھی وہ بے چین سی رہنے لگی تھی اس طرح ایک رات وہ چپکے سے باہر لان میں آگئی باہر بارش ہو رہی تھی اور اس وقت اسے لگا کہ وہ بالکل اکیلی ہے وہ خاموش کھڑی بارش میں بھیگنے لگی جب آتش اسے ڈھونڈتا ہوا باہر آیا
"مہر اندر چلو بیمار ہو جاؤ گی"
آتش نے دھیرے سے کہا
" مجھے فرق نہیں پڑتا آتش، تمہیں بھی فرق نہیں پڑا تو اب کیوں پڑ رہا ہے ؟"
وہ چلائی تھی
"فرق پڑتا ہے مہر! بہت فرق پڑتا ہے"
اس کی آواز اب بھی نرم تھی اور آنکھوں میں شرمندگی اب بھی صاف ظاہر تھی
"اب کیوں؟ اب کیوں تمہیں میری اتنی پرواہ ہو رہی ہے جب چاہتے ہو ڈانٹ دیتے ہو جب چاہتے ہو غصہ کرتے ہو چلاتے ہو بے پرواہ بن جاتے ہو اور اب؟ اب کہہ رہے ہو کہ تمہیں فرق پڑتا ہے "
اس کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے آتش کے دل کو کچھ ہونے لگا اس نے آگے بڑھ کر اس کے پاس جانا چاہا مگر وہ تیزی سے اندر کی طرف چلی گئی مہر کو لگا اب وہ پھر سے پہلے والا آتش بن جائے گا مگر ایسا نہ ہوا وہ اس کا بنا کچھ کہے خیال رکھنے لگا تھا وہ دوائی کھانے سے منع کرتی وہ زبردستی کھلاتا تھا وہ جہاں بھی جاتی وہ اس کے ساتھ ساتھ ہوتا وہ ہر بار کہنے کی کوشش کرتی کہ اسے آتش کی ضرورت نہیں مگر وہ اس کی بات مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا جیسے سنا ہی نہیں ہاں البتہ باقی وہ اس کی ہر کڑوی کسیلی بات ایسے سنتا جیسے دکھ بھی اس کے لفظوں سے محبت چرا رہے ہوں
،،،،،،
Meher ne halki roshni mein aankhein kholi to apne aap ko kamzor aur thaka hua mehsoos kiya. Thand aur bechaini ne use ghera hua tha. Jab usne harkat karne ki koshish ki to chakkar aa gaya. Atish jo pass hi kursi par so raha tha, jaise hi Meher ki halki si harkat mehsoos hui, foran jaag gaya. Usne dekha ke Meher be-hosh hone lagi thi. Ghabrahat mein Atish ne use godh mein uthaya aur turant hospital ki taraf bhaag gaya.
Is beech kahani mein ek naya character introduce hota hai — Raafay Shah. College ke entrance par uski siyah SUV rukti hai aur woh apne professional andaaz mein, ek confident businessman ke taur par college aata hai. Wahan uski nazar apne purane jaane pehchaane chehre Emal par padti hai. Dono ke beech ek anjaani si tension aur attraction ka silsila shuru hota hai, jabke college ka mahaul us waqt business presentation se bhar gaya hota hai.
Atish hospital tak Meher ko le jata hai, jahan doctors batate hain ke Meher stress aur extreme cold ki wajah se weak ho gayi hai. Atish ki guilt aur tension itni gehri thi ke apne jazbaat ko sambhalna mushkil ho gaya. Wo pehli baar apne aapko Meher ke liye itna bebus mehsoos karta hai.
Wahan dusri taraf, Raafay apni presentation ke dauraan bhi sirf Emal ko dekh raha hota hai. Uski har line mein ek hidden message tha jo sirf Emal ko samajh aa raha tha. Raafay ka intense nazar andaaz aur Emal ka chhup-chhup kar use dekhna, dono ke darmiyan ek silent communication shuru kar deta hai.
Hospital mein Atish aur Meher ke darmiyan ek emotional confrontation hota hai. Atish ka gussa aur guilt ek saath phoot padte hain jab wo Meher se kehta hai ke agar use marna tha to pehle keh deti. Meher thande leje mein jawab deti hai ke Atish to pehle hi use maar chuka hai. Ye alfaz Atish ke dil ko chot dete hain lekin wo apne emotions se bhaagne ke liye wahan se nikal jata hai.
College hall mein jab Raafay apni speech complete karta hai to hall taaliyon se goonj uthta hai, magar uska focus sirf Emal par rehta hai. Presentation ke baad, Raafay Emal ke paas aata hai aur dono ke darmiyan aik sharp aur playful conversation hoti hai. Emal apni dignity aur independence ko barkarar rakhte hue uski teasing ka jawab deti hai, jabke Raafay apni possessiveness aur attraction ko halka-phulka zaahir karta hai.
Raafay Emal se kehta hai ke wo jitni door bhaagne ki koshish karegi, wo utna hi uske kareeb aayega. Jab Emal use ignore karne ki koshish karti hai, Raafay use gently roakta hai, aur is tension-filled moment mein dono ke beech emotions aur chemistry aur gehri ho jati hai.
Chapter ka overall mood ek taraf Meher aur Atish ke beech guilt aur regret ka hai, to doosri taraf Emal aur Raafay ke darmiyan naye jazbaat, attraction aur silent promises ka.